•صوتُ الشّیطان و مزمار الشّیطان•
••صوتُ الشّیطان و مزمار الشّیطان••
┄┅════❁﷽❁════┅┄
══════•❁ا۩۩ا❁•══════
⊱صوتُ الشّیطان و مزمار الشّیطان⊰
(موسیقی، ساز و سرود)
══════•○ ا۩۩ا ○•══════
🍁✍۔مسعود محبوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
❃ موسیقی کی حُرمت و قَباحت آیاتِ قرآنی کی روشنی میں
❃ حرمتِ موسیقی احادیثِ طیّبہ کی روشنی میں
❃ حرمتِ موسیقی پر صحابۂ کرام اور خلفاء کا کردار
❃ سلفِ اُمّتؒ کی نظر میں موسیقی
❃ جمہور علماء امّت کا مسلک
❃ سماع و موسیقی میں فرق
❃ آلات طرب و نشاط (میوزک)
❃ میلادُ النبی اور موسیقی!
❃ اسلام میں حرمتِ موسیقی کیوں؟
❃ اعصاب انسانی پر موسیقی کے مضر اثرات
❃ موسیقی، منشیات اور جنسی خواہش
❃ متشدد مزاج کا پروان چڑھنا
❃ سیاسی اور استعماری حربہ
❃ موسیقی خود' موسیقی داں کے لئے سم قاتل
❃ موسیقی اور مطالعہ
❃ انسانی فطرت پر خطرناک اثرات
❃ جذباتی سیلاب۔ Emotional Flooding
┄─═✧═✧═✧═✧═─┄
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
دین داری کا لبادہ اوڑھے ہوئے، اللّٰہ کا خوف دل میں بسائے ہوئے مسلمانوں کی ایک اجتماعیت بڑی ڈھٹائی سے اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ ساز و موسیقی کے آلات کا استعمال، سماع قوّالی کی مجالس روح کو غذا فراہم کرتے ہیں، جسم و دماغ کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ ان کی مبالغہ آمیز سوچ یہ ہے کہ موسیقی دلوں کو سکون پہنچاتی ہے۔
نام نہاد مہذب اور لبرل مسلم معاشرہ موسیقی کو دل و دماغ اور روح کو سکون اور تازگی بخشنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ روح کی غذا موسیقی کو سمجھتا ہے، بد بختوں روح کی غذا کیا ہے تم کیا جانو؟ روح کی غذا تو اللّٰہ کا ذکر، دل و دماغ کے سکون کا ذریعہ اللّٰہ کا ذکر ہے، اس کی عبادت ہے۔ جس طرح جسم غذا کے بغیر نہیں رہ سکتا ویسے ہی روح بھی بغیر غذا کے نہیں رہ سکتی۔ معلوم ہونا چاہیے کہ موسیقی شیطان کی غذا ہے، ایک مضر نشہ ہے، موسیقی آوازوں اور خاموشیوں کے امتزاج پر مشتمل عمل کا نام موسیقی ہے۔ موسیقی کا ترنم اور سوز، رقص کے ہم راہ دراصل انسانی روح کا وحشیانہ استحصال ہے۔ جسے آج کا کم علم و عقل انسان غذا سمجھ بیٹھا ہے۔
حضرت عبداللّٰہ بن عَمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: "اللّٰہ عزّوجلّ نے شراب، جوا، طبلہ و ساز اور مکئی سے بنی شراب حرام کی ہے، اور ہر نشہ آور چیز ہی حرام ہے"۔ (ابوداؤد: ۳۶۸۵، مسند احمد اور سنن کبریٰ بیہقی)۔
حقیقت یہ ہے کہ آلات طرب و نشاط، ساز و موسیقی، محفلِ نشید و مشاعرہ، سماع قوّالی اور مجالسِ نغمہ و سرود وغیرہ ایسے تمام اعمال کے متعلق اسلام کی اپنی ایک مختلف آرا ہے۔ اسلام کے نزدیک یہ تمام اعمال و حرکات ناجائز و ممنوع اور شیطانی و قبیح افعال ہیں۔ اسلام نے ایسی آوازوں کو "صوتُ الشّیطان" شیطان کی آواز سے تعبیر کیا ہے اور موسیقی کے آلات و ساز کو "مزمار الشّیطان" یعنی شیطان کا ساز قرار دیا ہے۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ میں آلات طرب و نشاط، ساز و موسیقی حرام ہے اور شیطانی افعال میں سے ہے۔
قرآن کریم کی آیات، احادیثِ رسول اللّٰہﷺ، صحابۂ کرامؓ اور اقوالِ تابعینؒ کے پیشِ نظر صحابۂ کرامؓ، تبع و تابعینؒ، آئمہ مجتہدینؒ، آئمہ اربعہؒ اور جمہور علماءِ امتؒ کے نزدیک موسیقی کا استعمال حرام و ناجائز ہیں۔ ان شاء اللّٰہ! اس اہم موضوع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔
❃ موسیقی کی حُرمت و قَباحت آیاتِ قرآنی کی روشنی میں:
قرآن حکیم گانے بجانے کی حُرمت اور واضح احکامات کے ذریعے ہماری رہنمائی کرتا اور فرماتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّشۡتَرِىۡ لَهۡوَ الۡحَدِيۡثِ لِيُضِلَّ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِغَيۡرِ عِلۡمٍۖ وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمۡ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ۔
اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللّٰہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑا دے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ (سورہ لقمان: 6)
اس آیت میں وارد کلمہ "لَہْوَ الْحَدِیْثِ" سے مراد گانا بجانا یا ساز و موسیقی ہے۔ نبی کریمﷺ نے سورۂ لقمان کی یہ آیت تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا: "مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، کوئی شخص جب گانا گاتے ہوئے اپنی آواز اونچی کرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ دو شیطان بھیج دیتا ہے جو اس کے دونوں کندھوں پر چڑھ کر اس کے سینے پر پاؤں مارنے (رقص کرنے) لگتے ہیں اور نبی کریمﷺ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ فرمایا اور جب تک وہ خاموش نہ ہوجائے وہ پاؤں مارتے ہی رہتے ہیں۔"
اس حدیث سے آیت کے کلمات لَہْوَ الْحَدِیْثِ کی وضاحت آگئی کہ اس سے مراد گانا و موسیقی اور گلوکار و موسیقار ہیں اور یہ آیت ہی انہی اشیاء کو حرام کرنے کے لئے نازل کی گئی ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ نے تین بار قسم اٹھا کر فرمایا کہ اس آیت میں "لَہْوَ الْحَدِیْثِ" سے مراد گانا بجانا ہے۔ (ابن جریر) ابن ابی شیبہ، حاکم بیہقی)۔ اور جب گانے کے ساتھ ہی رباب، عُود، طبلہ اور وائلن وغیرہ آلاتِ موسیقی بھی شامل ہوجائیں تو حرمت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ کسی ساز کے ساتھ گانا بالاجماع حرام ہے لہٰذا اس سے بچنا واجب ہے۔
لَہْوَ الْحَدِیْثِ کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین جس میں ابن عباسؓ، حضرت جابرؓ، حضرت عکرمہؓ، سعید بن جبیرؒ، مجاہدؒ، مکحولؒ، عمرو بن شعیبؒ اور علی بن جذیمہؒ سے بھی اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے۔ (تفصیل کیلئے تفسیر ابن کثیر ۳/۴۵۷، تفسیر قرطبی ۱۴/۵۱، تفسیر بغوی ۴/۴۰۸، تفسیر مظہری ۷/۲۴۶ کا مطالعہ کیجئے)۔
صاحبِ تفہیم القرآن مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں اصل لفظ ہیں "لَھُوَ الْحَدِیث" یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کرکے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے۔ لغت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے۔ لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بری اور فضول اور ہیہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے، مثلاً گپ، خرافات، ہنسی مذاق، داستانیں، افسانے اور ناول، گانا بجانا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری ہے:
اَفَمِنۡ هٰذَا الۡحَدِيۡثِ تَعۡجَبُوۡنَۙ القرآن - وَتَضۡحَكُوۡنَ وَلَا تَبۡكُوۡنَۙ - وَاَنۡتُمۡ سٰمِدُوۡنَ -
اب کیا یہی وہ باتیں ہیں جن پر تم اظہارِ تعجّب کرتے ہو؟ ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو؟ اور گا بجا کر انہیں ٹالتے ہو؟ (سورۃ النجم: 59- 61)
"سَامِدُونَ" کا مصدر ''سمود'' ہے، عبداللّٰہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں یمنی لُغت میں «سَمَد» گانے کو کہتے ہیں۔ (السنن الکبری للبیھقی/ حدیث ٢٠٧٩٤)۔ آیتِ مذکورہ میں "سَامِدُونَ" سے مراد ایک تفسیر کے مطابق گانے بجانے میں لگے رہنا ہے۔ (قرطبی)۔
"تفہیم القرآن کے مفسر فرماتے ہیں، اصل میں لفظ سامِدُوْنَ استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی اہل لغت نے بیان کیے ہیں۔ ابن عباس عکرمہ اور ابو عبیدہ نحوی کا قول ہے کہ یمنی زبان میں سُمُود کے معنی گانے بجانے کے ہیں اور آیت کا اشارہ اس طرف ہے کہ کفار مکہ قرآن کی آواز کو دبانے اور لوگوں کی توجہ دوسری طرف ہٹانے کے لیے زور زور سے گانا شروع کر دیتے تھے۔"
قَالَ اذۡهَبۡ فَمَنۡ تَبِعَكَ مِنۡهُمۡ فَاِنَّ جَهَـنَّمَ جَزَآؤُكُمۡ جَزَآءً مَّوۡفُوۡرًا - وَاسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡهُمۡ بِصَوۡتِكَ وَاَجۡلِبۡ عَلَيۡهِمۡ بِخَيۡلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكۡهُمۡ فِى الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَوۡلَادِ وَعِدۡهُمۡ ؕ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا - اِنَّ عِبَادِىۡ لَـيۡسَ لَـكَ عَلَيۡهِمۡ سُلۡطٰنٌ ؕ وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيۡلًا -
اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا "اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں، تجھ سمیت اُن سب کے لیے جہنم ہی بھرپور جزا ہے۔ تُو جس جس کو اپنی دعوت یا آواز سے پھِسلا سکتا ہے پِھسلا لے، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ سا جھا لگا، اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس۔ اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا اور توکّل کے لیے تیرا ربّ کافی ہے۔" (سورۃ الإسراء: 63 - 65)
عبداللّٰہ بن عباسؓ فرماتے ہیں، شیطان کی آواز سے مراد ہر وہ آدمی ہے جو اللّٰہ کی نافرمانی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ (تفسیر ابن جریرؒ)
حضرت مجاہد بن جبیرؒ نے "بِصَوۡتِكَ" کی تفسیر میں فرمایا، اس سے مراد گانا بجانا اور لہو و لعب ہے۔ (تفسیر ابنِ کثیر: ٣۳/۴۰٤٠)
وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا۔
اور (رحمٰن کے بندے وہ ہیں)جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔
حضرت مجاہدؒ، اِمام ابوحنیفہؒ اور محمّد بن حنفیہؒ سے مذکورہ آیت میں "الزُّورَ" کی تفسیر میں گانا بجانا منقول ہے، پس اِس اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ رحمٰن کے بندے گانے بجانے میں نہیں لگتے۔ (قرطبی)
"اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔" (سورۃ الانفال: 35)
❃ حرمتِ موسیقی احادیثِ طیّبہ کی روشنی میں:
جنابِ رسالت مآب محمدﷺ نے فرمایا، اللّٰہ نے مجھے سارے جہانوں کے لیے ہدایت اور رحمت بناکر بھیجا ہے، اور تمام "مزامیر" (گانے باجے کے سامان) کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ (مسند احمد/ ۲۲۲۱۸)
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں بانسریاں (آلات موسیقی) توڑنے کے واسطے بھیجا گیا ہوں۔ (نیل الأوطار)
حضرت عبد اللّٰہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے رات کو کسی کو گانا گاتے ہوئے سنا تو اِرشاد فرمایا، اُس کی نماز قبول نہیں، اُس کی نماز قبول نہیں، اُس کی نماز قبول نہیں۔ (نیل الاوطار: ۸/۱۱۳)
خاتم النبیین محمدﷺ نے علاماتِ قیامت میں گانے باجے کی کثرت کو بھی ارشاد فرمایا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف)
نبی اکرمﷺ کی پیش گوئی کے مطابق "میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو شراب پئیں گے، اس کو اس کے نام کے علاوہ دوسرے نام سے پکاریں گے۔ ان کے سروں پر موسیقی اور گانے کے آلات ہوں گے اور وہ گانے والیوں کو سنیں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کے نیچے سے زمین کو شق کر دیں گے اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دیں گے۔ (ابنِ ماجہ)
حضرت ابو اُمامہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: گلو کاراؤں کا خریدنا، بیچنا اور ان کی تجارت کرنا حلال نہیں اور ان کی قیمت کھانا حرام ہے۔
رحمت للعالمین محمدﷺ نے فرمایا: "میری امّت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے، جو بدکاری، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال ٹھہرا لیں گے۔ (بخاری: کتاب الاشربہ: ح: 5268/ 5590)
حضور اکرم محمدﷺ نے فرمایا: میری امّت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو ریشم، شرمگاہ (زنا)، شراب اور گانے بجانے والی چیزوں کو حلال بنا لیں گے۔ (ترمذی: کتاب الفتن: 2213)
اُمّ المؤمنین ام حبیبہؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: فرشتے کسی ایسے کاروان کے ساتھ نہیں رہتے جس میں گھنٹی ہو۔ (ابوداؤد، مسند احمد)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: اَلْجَرَسُ مَزَامِیْرُ الشَّیْطَانِ۔ (گھنٹی شیطان کی بانسریاں (ساز) ہیں)۔ (صحیح مسلم، ابوداؤد اور مسند احمد: 8850)
اسی لئے آپ نے جنگ ِبدر کے موقعہ پر اونٹوں کی گردنوں سے گھنٹیاں الگ کر دینے کا حکم دیا تھا۔
رسول اللّٰہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ جَرَسٌ“ فرشتے اُس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں گھنٹی ہو۔(ابوداؤد:4231)
جھانجن (پاؤں کا زیور جس میں آواز ہوتی ہے) بھی شیطانی ساز ہے!
اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمیٰمیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہﷺ سے سنا: جس گھر میں جھانجن یا گھنٹی ہو، اس میں فرشتے نہیں آتے۔ (نسائی)
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہؓ نے فرمایا: میرے پاس ایک لڑکی لائی گئی جس کے پاؤں میں جھانجیں تھیں جو کہ آواز دیتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: اسے میرے پاس نہ لاؤ جب تک اس کی جھانجیں کاٹ نہ دو اور فرمایا کہ میں نے رسول اللّٰہﷺسے سنا: جس گھر میں جھانجیں ہوں، وہاں (رحمت کے) فرشتے نہیں آتے۔ (ابوداود )
غناء حیا کو کم کرتا ہے، شہوت میں اضافہ کرتا ہے، مروت اور اخلاق کو تباہ کر دیتا ہے۔ (روح المعانی:۲۱؍۶۸۔ایضاً۔)
سفر اور ڈرائیونگ کے دوران موسیقی سننے کے متعلق حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص سفر کی حالت میں اللّٰہ کی یاد اور ذکر میں لگا رہتا ہے تو فرشتہ اس کا ہمسفر ہوجاتا ہے، اور اگر شعر و شاعری (گانے و موسیقی) میں مشغول رہتا ہے تو شیطان اس کا رفیق سفر بن جاتا ہے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی: 895حدیث حسن)
❃ حرمتِ موسیقی پر صحابۂ کرام اور خلفاء کا کردار:
اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ نے ایک عورت کو گھر پر دیکھا جو گارہی تھی اور اپنے سر کو خوشی سے گھما رہی تھی اور بڑے بڑے بال رکھے ہوئے تھے۔حضرت عائشہؓ نے فرمایا: "اُف یہ تو شیطان ہے، اس کو نکالو، اس کو نکالو، اس کو نکالو"۔ (بخاری)
حضرت نافع ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ عبداللّٰہ بن عمرؓ نے ساز بانسری کی آواز سنی تو انہوں نے اپنے کانوں میں اُنگلیاں دے دیں اور راستہ بدل لیا، دور جاکر پوچھا: نافع کیا آواز آرہی ہے؟ تو میں نے کہا: نہیں، تب انہوں نے انگلیاں نکال کر فرمایا کہ ایک دفعہ میں رسول اللّٰہﷺ کے ساتھ تھا، آپ نے ایسی ہی آواز سنی تھی اور آواز سن کر میری طرح آپ نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں تھیں۔(احمد، ابوداود، ابن حبان)
حضرت عبد اللّٰہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: "صوت اللہو والغناء تینبت النفاق في القلب کما بنبت الماء النبات"
لہو ولعب اور 'غنا' (گانا باجا) دل کے اندر نفاق پیدا کر دیتا ہے، جیسا کہ پانی زمین میں گھاس اگا دیتا ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ گانے اور موسیقی کی وجہ سے اخلاص اور حقیقت پسندی ختم ہوکر نفاق اور ریاکاری پیدا کرتی ہیں، اس لیے اس سے تدارک بےحد ضروری ہے۔ جس سے نفاق اور قساوت پیدا ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں ذکر و تلاوت اور عبادت و اطاعت کی لذت ماؤف و ختم ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے عفت مآب صنفِ نازک کو دینی و دنیاوی نصب العین سے دور کرکے بے حجاب اور بے حیاء بنانے کی شیطانی کوشش کی جارہی ہیں۔
جن گانوں اور موسیقی میں آنکھوں کا وصف، محبوب و معشوق کی خوبیاں اور عشق و فراق کے آثار ہوتے ہیں، وہ ایک شیطانی آواز ہے، جو دلوں میں پیوست ہوکر ان کے شہوانی جذبات کو بھڑ کاتی ہے۔ ناچ گانا اور کھیل تماشا، ناک میں گندی بو اور کانوں میں فسق و فجور کی آواز بھرتے ہیں۔ موسیقی بےحیائی میں مبتلا کر دیتی ہے۔
جلالُ الدّین سیُوطیؒ فرماتے ہیں: گانے (باجے) سے اپنے آپ کو بچاؤ! کیوں کہ یہ "حیاء" کو کم کرتے، شَہوت کو اُبھارتے اور غیرت کو برباد کرتے ہیں اور یہ شراب کے قائم مقام ہیں، اس میں نشے کی سی تاثیر ہے۔ (تفسیر در منثور، پ21، ج 6،ص 506)
امام احمدؒ فرماتے ہیں، "حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ کے ساتھی (تابعینؒ) گلیوں میں بچوں سے دَفیں چھین کر انھیں توڑ دیا کرتے تھے۔‘‘ یہ اس لیٔے کہ دَفیں صرف شادی و عید کی تقریبات کے موقع پر بجانے کی اجازت تھیں، ہر وقت اور بے موقع محل نہیں۔ دَفیں دیگر تقریبات میں بجانا مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہیں۔
دَف ایک طرف سے بند ہوتا ہے جس کو بجایا جاتا ہے، اور دوسری طرف سے کھلا ہوتا ہے اور اس میں گھنگھرو یا چھن چھن کرنے والی کوئی چیز نہ ہو۔ لہذا جس دف کی بناوٹ مذکورہ تعریف کے مطابق درست ہو تو جن مواقع پر شریعت نے دَف بجانے کی اجازت دی ہے ان میں درج ذیل شرائط کا اہتمام کیا جائے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے۔
دَف بلکل سادہ ہو اس میں کسی قسم کا ساز یعنی گھنگھرو یا چھن چھن کرنے والی کوئی چیز نہ ہو۔ اس کو کسی خاص گانے وغیرہ کے طرز پر نہ بجایا جائے جس سے کیف و مستی پیدا ہو۔ دَف بجانے والی یا گیت گانے والی چھوٹی بچیاں ہوں اور وہ پیشہ ورانہ طور پر گانا گانے والی نہ ہوں۔ نغمے کا مضمون غیر شرعی نہ ہوں۔ تھوڑی دیر تک بجایا جائے۔
ایسا دَف اعلانِ نکاح، ولیمہ، عید اور دیگر شرعی خوشی کے مواقع پر بجایا جائے تو مذکورہ بالا حدود و قیود کے ساتھ گنجائش ہے۔
سنن نسائی میں پانچویں خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے عمر بن ولید کو ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر فرمایا: "یہ تمہارا ساز و موسیقی اور بِین و بانسری کو ظاہر کرنا اسلام میں ایک بدعت ایجاد کرنا ہے۔ میں نے ارادہ کیا کہ تمہارے پاس کسی کو بھیجوں جو تمہاری ان زلفوں کو نوچ لے جو کہ برائی کی علامت بن رہی ہیں۔"
علّامہ ابن الجوزیؒ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اپنے بچوں کے اتالیق و معلّم کو لکھ کر یہ حکم دیا تھا کہ میرے بچوں کو جو آداب سکھلائے جائیں ان میں سے سب سے پہلے ان میں یہ اعتقاد جاگزیں کریں کہ یہ گانا بجانا اور یہ کھیل تماشا سب بری اور باعثِ نفرت چیزیں ہیں۔ ان کا آغاز کرنے والا شیطان ہے اور ان کی سزا و انجام ربِّ رحمن کی ناراضگی و غصّہ ہے۔ مجھے ثقہ اہلِ علم سے یہ بات پہنچی ہے کہ گانا بجانا اور سماع و قوّالی کی محفلوں میں شرکت کرنا دلوں میں یوں نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح کہ پانی جڑی بوٹیوں کو اگاتا ہے۔
حسنؒ فرماتے ہيں: اگر وليمہ ميں لہو اور گانا بجانا ہو تو اس كى دعوت قبول نہيں۔
❃ سلفِ اُمّتؒ کی نظر میں موسیقی:
معروف تابعی حسن بصریؒ فرماتے ہیں: دو آوازیں بڑی لعنتی ہیں، نعمت و خوشی کے موقع پر گانا بجانا اور مصیبت کے وقت چیخ و پکار اور بَین کرنا۔
حضرت فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں: ”الْغِنَاءُ رُقْيَةُ الزِّنَى“ گانا بجانا زنا کا منتر ہے (یعنی اِس سے زنا کا دروازہ کھلتا ہے)۔ (شعب الایمان :4754)
عامر بن شراحیل شعبیؒ فرماتے ہیں: بلاشبہ گانا دل میں یوں نفاق پیدا کرتا ہے، جس طرح پانی فصل اُگاتا ہے اور بلا شبہ ذکرِ الٰہی دل میں یوں ایمان کو بڑھاتا ہے جیسے پانی فصل کو اُگاتا ہے۔
مزید لکھتے ہیں: "یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ گانے میں بعض خاصیّتیں پائی جاتی ہیں جن کا دل پر نفاق کا رنگ چڑھانے اور پانی کے کھیتی کو بڑھانے کی طرح نفاق کو بڑھانے میں خاص اثر ہوتا ہے۔ ان خاصیّتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ گانا بجانا دل کو غافل کرتا ہے، قرآن سمجھنے اور اس پر تدبّر اور عمل کرنے سے روکتا ہے۔ گانا اور قرآن کبھی بھی ایک دل میں اکٹھے نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
آگے لکھتے ہیں.... "غرض گانا بجانا اور شراب ایک ہی جیسے خواص رکھتے ہیں اور بعض عارفین نے کہا ہے کہ محفلِ قوّالی کچھ لوگوں کے دلوں میں نفاق، کچھ میں عناد، بعض میں جھوٹ، بعض میں فسق و فجور اور کئی لوگوں کے دلوں میں غرور و تکبّر پیدا کرتی ہے۔ گانا بجانا دل کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اور جب دل کی حالت بگڑ جائے تو اس میں نفاق ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ اگر کوئی عقلمند شخص گانے بجانے یا سماع کی محفلوں میں بیٹھنے والوں اور تلاوتِ قرآن و ذکر الٰہی میں مصروف رہنے والوں کے حالات میں موازنہ کرے تو اسے صحابہ کرامؓ کی حکمت و دانشمندی اور انکے دلوں کی بیماریوں کے جاننے والے ہونے اور ان بیماریوں کے علاج کے ماہر ہونے کا معترف ہونا پڑے گا۔"
مُحدِّثِ کبیر اِمام شعبیؒ فرماتے ہیں، "لُعِنَ الْمُغَنِّي وَالْمُغَنَّى لَهُ"۔ گانے والا اور جس کے لیٔے گایا جائے، دونوں ہی ملعون ہیں۔
سنن کبریٰ بیہقی اور الامر بالمعروف خلال میں ابو حصین بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے کسی کا طنبورہ (باجا) توڑ دیا، وہ اپنی شکایت لیکر قاضی شریح ؒ کی عدالت میں پہنچا، انہوں نے اُسے اسکی کوئی ضمانت (قیمت) نہ دلوائی۔
حضرت سعید بن مسیبؒ فرماتے ہیں، مجھے گانا ناپسند اور رزمیہ اشعار یا جنگی ترانہ (بلا ساز) پسند ہے۔
محدث ضحکؒ فرماتے ہے کہ غنا مال کا ضیاع، اللّٰہ کی ناراضگی اور دل کے بگاڑ کا سبب ہے۔
قاسمؒ كہتے ہيں: گانا بجانا باطل ميں سے ہے۔
آئمہ اربعہ، علماء و فقہاء اور آئمہ مجتہدین نے بھی لہو و لعب و موسیقی اور آلاتِ طرب و نشاط یا ساز سرور کے بارے میں متّفقہ طور پر کہا ہے کہ یہ ناجائز ہے اور بعض نے واضح طور پر اسے حرام قرار دیا ہے۔
امام شافعیؒ تو یہاں تک فرمایا: بے شک گانا بجانا تو مکروہ و ناپسندیدہ لہو و لعب ہے جو کہ باطل و محال کے مشابہ ہے اور جو شخص اس کا بکثرت ارتکاب کرتا ہے وہ بے وقوف ہے اور اس کی گواہی و شہادت مردود و نامقبول شمار کی جائے گی۔
امام ابوحنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ اور ان کے اصحاب سے بھی موسیقی کے حرام ہونے کے اقوال ثابت ہیں۔
امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں لکھا ہے: وہ گانے کو مکروہ سمجھتے (ناپسند کرتے) اور اسے گناہ شمار کرتے تھے۔
حنفی فقہاء کا اصول ہے کہ اگر کسی چیز کے بارے میں مطلقاً مکروہ کہا جائے تو کراہت کے اس اطلاق سے اس چیز کا حرام ہونا مراد ہوتا ہے، تو گویا امام صاحب کے نزدیک یہ حرام یا مکروہِ تحریمی ہے۔
امام طرطوشیؒ کے بقول اہلِ کوفہ سفیان، حمّاد، ابراہیم نخعی اور شعبی وغیرہ سب کا یہی نظریہ ہے، اِس میں ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے حتیٰ کہ اہلِ بصرہ میں بھی اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
علّامہ ابن قیمؒ نے اغاثۃ اللہفان میں لکھا ہے کہ ساز و موسیقی اور سماع و قوّالی یا گانا وغیرہ سننے کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا قول دیگر آئمہ کے اقوال سے بھی سخت ہے۔ اور ان کے ساتھیوں اور شاگردوں نے تمام سازوں کے حرام ہونے، انہیں سننے کے معصیت و نافرمانی ہونے، اس کے موجبِ فِسق ہونے اور ایسے شخص کی شہادت و گواہی کے مردود و نامقبول ہونے کی صراحت کی ہے۔بلکہ اصحابِ امام ابوحنیفہؒ نے تو اس سے بھی بلیغ کلمات میں یوں لکھا ہے:
اِنَّ السِّمَاعَ فِسْقٌ وَ التَّلَذُّذُ بِہٖ کُفْرٌ
سماع (قوّالی و گانا سننا) فِسق ہے اور اُس سے لطف اندوز ہونا کفر ہے۔
امام ابوحنیفہؒ کے معروف دو شاگردوں میں سے قاضی ابو یوسفؒ نے ایک ایسے گھر کے بارے میں جس سے ساز و موسیقی اور لہو و لعب کی آوازیں آرہی تھیں، کسی کو حکم دیا کہ گھر والوں کی اجازت کے بغیر ہی اس میں داخل ہو جاؤ کیونکہ منکر و برائی سے روکنا فرض ہے، اور اگر ایسی جگہوں میں بلا اجازت داخلہ جائز نہ ہوگا تو لوگ فرائض کی ادائیگی نہ کر پائیں گے، اور اگر کسی گھر کا مالک باز نہ آئے بلکہ اپنی اس حرکت پر اصرار کرے تو امام و سلطان کو چاہیٔے کہ اُسے قید و بند اور کوڑوں کی سزا دے اور چاہے تو اسے اس گھر کو چھوڑ جانے (شہر وملک بدری) کا حکم دے دے۔
امام مالکؒ بھی گانے بجانے کو باعث و ذریعۂ فسق و فجور قرار دیتے تھے۔ اسحاق بن عیسیٰ الطباعؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام مالکؒ سے پوچھا کہ بعض اہلِ مدینہ گانے کے بارے میں کچھ چُھوٹ دیتے ہیں تو آپ کا کیا خیال ہے؟ امام مالکؒ نے فرمایا: اِنَّمَا یَفْعَلُہٗ عِنْدَنَا الْفُسَّاقُ۔ ہمارے یہاں گانا صرف فاسق و فاجر لوگ ہی سنتے ہیں۔
شیخ ابو اسحاقؒ فرماتے ہیں: کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ گانے بجانے (اور ناچنے) والوں کو پیسہ دے، انہیں پیسے دینے کا یہ فعل حرام ہے، کیونکہ یہ ایک حرام جگہ پر مال خرچ کرنا ہے۔
❃ جمہور علماء امّت کا مسلک:
امام احمد رضا خانؒ اپنی کتاب "احکامِ شریعت، موسیقی دعوت عذابِ الٰہی" میں لکھتے ہیں کہ ان سے کسی نے سوال کیا جو کہ یوں تھا: آپ سے بعد نمازِ مغرب رخصت ہوا تو ایک دوست ایک عُرس پر لے گیا۔ وہاں نعت اور شانِ اولیاء اللّٰہ کے اشعار گانے کے ساتھ ساتھ سارنگیاں اور ڈھول بج رہے تھے۔یہ باجے شریعت میں قطعی حرام ہیں۔ کیا اس فعل سے رسول اللّٰہﷺ اور اولیاء اللّٰہ خوش ہوتے ہوں گے؟
ایسی قوّالی حرام ہے، حاضرین سب گناہگار ہیں، اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کروانے والوں اور قوّالوں پر ہے۔ حاضرین میں سے ہر ایک پر اپنا اپنا پورا گناہ، قوّالوں پر اپنا گناہ الگ اور سب حاضرین کے برابر جدا، اور ایسا عرس کروانے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوّالوں کے برابر جدا، اور سب حاضرین کے برابر علیحدہ۔ وجہ یہ کہ حاضرین کو عرس کروانے والے نے بلایا۔ اُن کے لئے اس گناہ کا سامان پھیلایا اور قوّالوں نے انہیں سنایا۔ اگر وہ سامان نہ کرتا تو یہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑتے، اس لیٔے ان سب کا گناہ ان دونوں (عُرس کروانے والے اور قوّالوں) پر ہوا۔ پھر قوّالوں کے اس گناہ کا باعث وہ عُرس کروانے والا ہوا، وہ نہ بلاتا تو یہ کیونکر آتے، لہٰذا قوّالوں کا گناہ بھی اس بلانے والے پر ہوا۔
اسلام میں موسیقی کو جائز قرار دینے والے لبرل مسلمانوں کا جواز و استدلال جن باتوں اور واقعات پر ہیں، اس کی بھی وضاحت ہونا بےحد ضروری ہے۔
✒ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس روایت میں نغمہ گانے والی نابالغہ اور چھوٹی بچیاں تھیں، جو غیر مکلّف ہوتی ہیں اور حضرت عائشہؓ کی صراحت کے مطابق "پیشہ ور گانے والیاں" نہیں تھیں۔ اور وہ جنگی رجس کررہی تھیں۔
✒ نیز یہ بھی کہ دَف کا استعمال اس زمانہ میں کسی اہم موقعہ کے اعلان کے لیے ہوا کرتا تھا، آلات موسیقی کے طور پر نہیں۔ (فتح الباری ج 2، 442)۔
✒ ساتھ ہی صحابیۂ کی شادی والی روایت کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جنگ بدر میں شہید ہونے والے ان صحابیۂ کے رشتہ داروں کی یاد میں رزمیہ نظمیں چھوٹی بچیاں گارہی تھیں جو جہاد کے لئے حوصلہ افزاء تھیں۔ نیز یہاں گانا بغیر آلات مراد ہیں جیسا کہ ابن ماجہ میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔ (فتح الباری، ج 9 ص 226)۔
✒ پردہ و حجاب کے احکام، مدینہ منورہ میں مشروع ہوئے ہیں، مکہ مکرمہ میں نہیں۔ لہٰذا مطلقا موسیقی کے جواز میں آپ کے مدینہ میں نابالغہ لڑکیوں کے ذریعہ دف بجا کر استقبال کرنے والی روایت کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ اسی کو "پڑھے لکھوں کی زبان میں قیاس مع الفارق" کہتے ہیں۔
❃ سماع و موسیقی میں فرق:
سماع کا تعلق موسیقی سے نہیں ہے، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ موسیقی اور مجرد اشعار گانے میں فرق نہ کرنے سے بھی دونوں میں التباس آتا ہے، علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ ذاتی وحشت دور کرنے کے لیے یا ادبی مہارت پیدا کرنے کے لیے مجرد اشعار کا گنگنانا جائز ہے، جس میں نہ چنگ ہو، نہ ستار ہو، نہ رباب ہو، نہ طبلہ ہو، نہ باجا ہو، نہ آرمونیم ہو۔
صحابۂ کرامؓ اور تابعینؒ و مجاہدینؒ نے جو اشعار گائے ہیں وہ اسی قسم کے اشعار تھے، اس کو کوئی بھی انصاف پسند، ذی شعور آدمی موسیقی نہیں کہہ سکتا ہے۔
امام غزالیؒ نے تمام تر دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے بہت ہی فیصلہ کن بات لکھی ہے کہ سماع حرام ہے اس وقت جب کہ اس کی وجہ سے شہوت ابھرتی ہو، اجنبیہ سے سنا جائے، آلات موسیقی ہی حرام ہوں، یا کلام میں ہی کوئی شرکیہ جملہ ہو۔
منہاج السنہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ شیطانی احوال کو تقویت دینے والی سب سے بڑی چیز یہ گانا و موسیقی سننا ہے، یہی مشرکین کا سماع ہے۔
ہر وہ کلام یا اشعار جس میں آلاتِ موسیقی کا استعمال نہ ہو، موسیقی کے سُر، راگ، مقامات، دورانیوں اور قواعد کے مطابق آواز کی ترتیب نہ رکھی جائے، بلکہ خوش آوازی کے لیے آواز کو لہرایا جائے، باریک یا موٹی نکالی جائے، یا بغیر گھنگھرو والا دف استعمال کیا جائے، یا جدید مشینوں کے ذریعہ آواز میں ایکو ڈالا جائے، اور آواز میں گونج پیدا کی جائے، اس کا سننا جائز ہے، اور یہ آلاتِ موسیقی کے استعمال کے حکم میں نہیں ہے، البتہ جس کلام میں موسیقی کے آلات کا استعمال کیا جائے یا موسیقی کے سر، راگ، مقامات وغیرہ قواعد کی رعایت رکھتے ہوئے منہ سے موسیقی کی آواز بناکر نکالی جائے ایسا کلام سننا ناجائز ہے۔
موسیقی کے آلات اور ساز کے ساتھ گانا حرام ہے، چاہے گانے والا مرد ہو یا عورت، اور مجلس میں گائے یا تنہائی میں۔ اسی طرح جو اشعار کفر و شرک یا بے حیائی و گناہ کی باتوں پر مشتمل ہوں ان کا گانا بھی (گو آلات و موسیقی کے بغیر ہو) حرام ہے۔ البتہ مباح اشعار اور ایسے اشعار جو حمد و نعت یا حکمت و دانائی کی باتوں پر مشتمل ہوں ان کا ترنم کے ساتھ پڑھنا جائز ہے، اور اگر عورتوں اور مردوں کا مخلوط مجمع نہ ہو تو دوسروں کو سنانا بھی جائز ہے، اگر کوئی عورت تنہائی میں یا خالص عورتوں کے مجمع میں (جس میں کوئی مرد نہ ہو، اور اس کی آواز مجلس سے باہر نہ جائے) ایسے اشعار ترنم کے ساتھ پڑھے تو یہ جائز ہے۔ لیکن آج کل کے فساق و فجار کے مروجہ عشقیہ گیت اور گانے حکمت و دانائی پر مشتمل نہیں ہوتے، بلکہ ان سے نفسانی خواہشات ابھرتی ہیں اور گناہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے، اس لیے یہ قطعی ناجائز ہیں، ان کا گانا نہ عورتوں کے لیے جائز ہے اور نہ مردوں کے لیے، نہ مجلس میں اور نہ تنہائی میں، حدیث میں ایسے ہی گانے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ دل میں نفاق پیدا کرتا ہے، خلاصہ یہ ہوا کہ شادی یا خوشی کی محافل میں عورتوں کا گھر کے اندر خالص عورتوں کی مجلس میں مروجہ گانے گانا ناجائز ہے، البتہ ترنم کے ساتھ اشعار پڑھنے کی دو شرطوں کے ساتھ گنجائش ہے، ایک یہ کہ غیر محرم مردوں کے کانوں میں ان کی آواز نہ پڑے، دوسری شرط یہ ہے کہ وہ اشعار فحش مضامین اور ناجائز کلام پر مشتمل نہ ہوں۔
❃ آلات طرب و نشاط (میوزک):
ہر وہ چیز جس سے شہوانیت کو ترغیب دی جاتی ہو اور روحانیت کو مغلوب کیا جاتا ہو، اخلاقی قباحت جیسے شرک، بے حیائی، فحاشیت و عریانیت کو تقویت ملتی ہو، اسلام میں وہ تمام چیزیں ممنوع و ملعون ہے۔
گانے بجانے اور میوزک و موسیقی کے آلات اور رقص و سرود کے محفلیں جمانے سے سوائے بے دینی، الحاد و گمراہی، گناہوں کی کثرت، بے شرمی و بے حیائی، حیاء و پاکدامنی کے فقدان اخلاقی بے راہ روی اور معاشرتی انتشار اور بے سکونی وغیرہ کے علاؤہ کوئی چیز نہیں پھیلی۔
بانسری، رباب، عُود، طبلہ، چنگ، ستار، طنبورہ (باجا)، سارنگیاں، ڈھول، ہارمونیم، گھنٹی، سیٹی، وائلن اور تالیاں وغیرہ وغیرہ آلاتِ موسیقی میں شمار ہوتے ہیں۔ راگ الاپنا، جگل بندی اور سرگم اس طرح کے مختلف عمل اصل میں غناء کی روح تصور کئے جاتے ہیں۔ جن کے متعلق نبی کریمﷺ نے فرمایا، اللّٰہ نے مجھے سارے جہانوں کے لیے ہدایت اور رحمت بناکر بھیجا ہے، اور تمام "مزامیر" (گانے باجے کے سامان) کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: گھنٹی شیطان کی بانسریاں (ساز) ہیں۔
جب ساز و موسیقی کے آلات میں سے صرف بانسری کا بجانا حرام ہے تو پھر اس سے بھی بڑے بڑے آلات کے حرام ہونے میں کسی صاحبِ علم کو کیسے شک ہوسکتا ہے؟ اور اسکا کم از کم درجہ یہ ہے کہ یہ فاسقوں اور شراب نوشی کرنے والوں کا شیوہ ہے۔ آلاتِ غناء و موسیقی کے ساتھ گانا شرابیوں کا شیوہ ہے اور ان آلات کا استعمال کرنا اور سننا حرام ہے۔ اور انہی میں سے بانسری بھی ہے۔
"الکُوبَۃ" طبل یعنی ڈھول کو کہا جاتا ہے، اب اِس ڈھول کو کوئی بھی شکل دے دیجیئے وہ اصل میں رہے گا تو ڈھول ہی، کوئی بھی نام دیجیئے اُسکی حقیقت تو نہیں بدلے گی، اُسے ڈھول کہیئے یا ڈھولکی، طبلہ کہیئے یا طبلی، ڈرم کہیئے یا باس بیٹر، ہے تو وہ "الکُوبَۃ" اور "القَنِین" ہر اُس آلۂ موسیقی کو کہا جاتا ہے، جِس کا اُوپر والا حصہ ایک ڈنڈے کی صورت میں ہوتا ہے، لکڑی کا ہو یا کِسی دھات کا اور نیچے والا حصہ کھوکھلا اور گول یا بیضوی شکل میں ہوتا ہے اور اوپر والے حصے کے آغاز سے نیچے والے حصے کے درمیان تک ایک یا زیادہ تاریں بندھی ہوتی ہیں۔
❃ میلادُ النبی اور موسیقی!
نبی کریمﷺ کے ولادتِ باسعادت کے موقع سے ہمارے علاقوں میں مجالس و جلوس کا انعقاد کیا جاتا ہے، مگر افسوس صد افسوس ایسی تقریبات میں موسیقی کو جگہ دے کر آپﷺ کے حکم کی کھلی مخالفت بلکہ موسیقی کو روح کی غذا قرار دے کر اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب کو کھلی دعوت دی جاتی ہے۔ آلات موسیقی کا استعمال کسی بھی حالت میں سنگین گناہ ہے، اور اس گناہ میں مزید اضافہ اس وقت ہو جاتا جب اسلام کا نام لےکر دینی مجالس کا انعقاد کیا جائے، چاہے وہ مجلس میلاد النبی ہو یا حمد و نعت خوانی کی یا کوئی اور۔ ہم کیسے عاشق رسولﷺ ہیں کہ جن چیزوں کو حضور رحمۃ للعالمینﷺ توڑنے اور مٹانے کے لیے تشریف لائے تھے، آج دجالی فتنے نے ہمیں اس کا اسیر بنا دیا۔ جن "مزامیر" (گانے باجے کے سامان) کو توڑنے میرے نبی کریمﷺ دنیا میں تشریف لائے آج وہی آلات ہمارے گھروں، محلوں، بستیوں اور شہروں میں اونچی سے اونچی آوازوں کے ساتھ استعمال کئے جارہے ہیں۔
ایک ہی محلے میں اونچی آواز کے ساتھ کئی DJ بجائے جاتے ہیں۔ جس سے گھروں کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ہر چیز حتیٰ کہ مضبوط دیواریں بھی ڈی جے کی دھنوں پر رقص کرتی نظر آتی ہیں! طلباء کو اپنے تعلیمی مطالعہ میں بے حد پریشانی ہوتی ہے!! بیمار افراد کو بے چارے ویسے ہی درد و بیماری میں پریشان ہوتے ہیں اس پر DJ کی شکل میں مزید عذاب!!! خدارا ایسی محفلوں میں دین اسلام کی کی عکاسی کرے نہ کہ دجالی فتنے کی!!!!
❃ اسلام میں حرمتِ موسیقی کیوں؟
سرود و موسیقی کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ وہ انسانوں کو مادی جسم کی لذتوں میں فنا کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے انسان صراط مستقیم سے دور ہوتا جاتا ہے۔ موسیقی سننے سے ہمارے جسم اور کردار پر انتہائی دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی منظر نامے کی عکاسی علامہ اقبالؒ نے اس طرح کی ہیں:۔ ؏
چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقاماتِ بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ، بدن کو بیدار
یعنی موسیقی جسم کو بیدار کرکے آپ کی روحانی صلاحیتوں کو معزور کر دیتی ہے۔
دور زوال امت میں رقص و سرور اب باقاعدہ عمومی دلچسپی کا فن بنتا نظر آرہا ہے۔ بے حس و بے غیرت مسلم ممالک، وہاں کے حکمران اور ان کے علماء کرام اور دانشوران اس فتنے سے محفوظ نہیں ہیں، ان کے ان قبیح اعمال و حرکات و سکنات کو دیکھ کر سادھے و کم فہم اور ناقص المطالعہ افراد شرعی جواز فراہم کرلیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مرد و زَن کی مخلوط محفلوں کا انعقاد عروج پر ہے۔ بڑے بڑے شادی ہالز، گیسٹ ہاؤسز، کلب، شاپنگ سینٹر، انٹرنیشنل ہوٹل اور دیگر اہم مقامات ان بیہودہ کاموں کے لئے بک کر دیئے جاتے ہیں جس کے لئے بھاری معاوضے ادا کئے جاتے اور شو کے لئے خصوصی ٹکٹ جاری ہوتے ہیں۔ مرد و زن کا چست اور نیم عریاں باریک لباس، میک اَپ سے آراستہ لڑکیاں رقص/ مجرے کرتی ہیں، جسے تہذیب و ثقافت اور تمدن کا نام دیا جاتا ہے۔ عاشقانہ اَشعار، ڈانس میں مہارت، جسم کی تھرتھراہٹ اور نسوانی آواز کی نغمگی اور ڈھول باجوں اور موسیقی کی دھن میں کمال دکھانے والوں اور کمال دکھانے والیوں، جنسی جذبات کو اُبھارنے والوں کو خصوصی ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔
نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ اگر عقلی دلائل کا جائزہ لیا جائے تو موسیقی کے آلات اور رقص و سرود کی ان محفلوں و مجالس اور جلسہ و جلوس کو سجانے سے سوائے بے دینی، الحاد و گمراہی، گناہوں کی کثرت، بے شرمی و بے حیائی، حیاء و پاکدامنی کے فقدان، اخلاقی بے راہ روی اور معاشرتی انتشار اور بے سکونی وغیرہ کے علاوہ کوئی چیز ہاتھ نہیں آئی۔ ؏
موسیقی سے جو لطف آتا ہے تمہیں
ہے محدود یہ لطف صرف زندگی تک
❃ اعصاب انسانی پر موسیقی کے مضر اثرات:
موسیقی غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی کا ذریعہ ہے۔ موسیقی اور آلات طرب و نشاط انسانوں کے اعصاب و دماغ اور جسم پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
❃ سماعت کا نقصان۔ Hearing Loss:
موسیقی کی مسلسل نمائش سے سماعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ روزمرہ کی آوازیں عام طور پر آپ کی سماعت کو نقصان نہیں پہنچاتی ہیں تاہم، بہت سے لوگ ایسی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے ہیں جو نقصاندہ آواز کی سطح پیدا کرتی ہیں، جیسے کہ اونچی آواز میں کھیلوں کی تقریبات اور موسیقی کی محفلوں میں شرکت کرنا اور بجلی کے آلات کا استعمال جو وقت کے ساتھ دہرایا جاتا ہے سماعت میں کمی کا سبب بنے گا تیز آواز (شور) کان کے حساس حصّوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
موسیقی کی مسلسل نمائش آپ کی سماعت کی حس کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کو اونچی آواز میں موسیقی سننے کی عادت ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ ان کی قوت سماعت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔ کسی بھی قسم کی موسیقی کا سننا انسان کے لئے جسمانی درد کا باعث بنے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ سننے کی صلاحیت کم ہوتی جائے گی۔
موسیقی اونچی آواز میں سننے کے بُرے اثرات صرف کانوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ اونچی آوازوں کے غیر سمعی اثرات بھی ہوتے ہیں جو قوتِ سماعت کو متاثر نہ بھی کریں لیکن انسانی جسم کو دیگر عوارض کا شکار بنا سکتے ہیں۔ مثلاً بلڈ پریشر کا بڑھ جانا، بے خوابی، سانس لینے میں دقّت، دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا اور خون کی شریانوں کا سکڑنا وغیرہ ایسے اثرات ہیں جو اونچی آواز میں موسیقی کو سننے سے پیدا ہوسکتے ہیں۔
"ٹنائٹس" (Tinnitus) سماعت کا ایک ایسا مرض ہے، جس کی علامت ایک کان میں عارضی یا مستقل طور پر گھنٹی نما سننی خیز آواز کا بجنا ہے۔ یہ مرض موسیقی کے زیادہ سننے کے باعث لاحق ہوتا ہے۔ جس سے سماعت میں کمی کان میں بجنے یا گونجنے کا سبب بن سکتا ہے، اور آواز ہائپراکوسس (Hyperacusia) کے لئے حساسیت میں اضافہ ایچ کو متاثر کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے نیند کی خرابی، ڈپریشن، اسٹریس، ہائپر ٹینشن، چڑچڑاپن، اضطرابی کیفیت اور پریشانی۔
دن کے کسی بھی وقت، خاص طور پر رات کے وقت، غیر معقول طور پر اونچی آواز میں موسیقی بجانا آپ کے پڑوسیوں اور خاندان کے لیے ایک بڑا درد سر ہو سکتا ہے۔ خاص طور سے ضعیف اور مریضوں کے لئے شدید پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت 1 ارب 10 کروڑ سے زائد نوجوان اور نو عمر بچے بہت بلند آواز اور زیادہ دیر تک موسیقی سن کر اپنی قوتِ سماعت کو مستقل بنیادوں پر متاثر کررہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 12 سے 35 سال کی عمر کے درمیان 4 کروڑ 30 لاکھ ایسے افراد ہیں، جو قوتِ سماعت سے محروم ہوچکے ہیں اور اس تعداد میں مزید اضافہ ہی ہورہا ہے۔
❃ موسیقی، منشیات اور جنسی خواہش:
یزید بن ولیدؒ کا ارشاد ہے: تم گانے بجانے سے بچو، اس سے حیاء کم اور شہوت زیادہ ہوتی ہے، وہ شراب کی طرح ہے اور نشہ آور چیزوں کا کام کرتا ہے، عورتوں کو اس سے الگ رکھو؛ اس لیے کہ گانا زنا کا قوی سبب ہوتا ہے۔
موسیقی، منشیات اور جنسی خواہش کا آپس میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ یہ تینوں دماغ کے ایک ہی حصے یعنی Limbic System کو متحرک کرتے ہیں۔ انسان کے دماغ کے اگلے حصے کے اندر گہرائی میں ایک نظام ہوتا ہے جو Limbic System کہلاتا ہے۔ نوجوان موسیقی سے اس لیے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہیں کیوں کہ یہ دماغ کے Limbic System کو متحرک کرتی ہے۔ مزیں برآں، دماغ کے اسی حصّے کو جنسی ہارمونز بھی متحرک کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق شراب بھی دماغ کے اسی حصّے پر اثر انداز ہو کر اس میں تحریک پیدا کرتی ہے اور مزاج میں تشدد اور جھگڑالوپن (aggression) پیدا کرتی ہے۔
غنا اور ناچ گانا نیز موسیقی، دراصل انسانی اعصاب کے نشہ کے عوامل میں سے ہے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ نشہ کبھی شراب کی شکل میں منھ کے ذریعہ انسان کے بدن میں پہنچتا ہے۔ اور کبھی ہیروئین کی شکل میں حس شامہ اور سونگھنے سے ہوتا ہے۔ اور کبھی مرفین انجکشن کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اور کبھی غنا و موسیقی کی صورت میں حس سامعہ یعنی کانوں کے ذریعہ نشہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کبھی کبھی غنا اور ناچ گانے کے ذریعہ انسان بہت زیادہ مست ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے غنا میں نشہ کے بہت سے مفاسد موجود ہیں، چاہے اس کا نشہ کم ہو یا زیادہ۔ ؏
شعر سے روشن ہے جان جبرئيل و اہرمن
رقص و موسيقی سے ہے سوز و سرور انجمن
فاش يوں کرتا ہے اک چينی حکيم اسرار فن
شعر گويا روح موسيقی ہے، رقص اس کا بدن
لوگ کہتے ہیں کہ موسیقی بڑی حد تک منشیات کی طرح کام کرتی ہے، کیوں کہ یہ انسان کو اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر کر دیتی ہے۔ وہ ذہن کو پُر فریب حالت میں پہنچا دیتی ہے۔ سائنس میں اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ موسیقی کی کئی اقسام ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جس سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔
❃ متشدد مزاج کا پروان چڑھنا:
موسیقی کو روح کی غذا کہنے والے لبرل مسلمانوں سے عرض ہے کہ جس موسیقی کو جنابِ رسالت مآبﷺ نے 14/ سو سال پہلے منافقت کی بنیاد قرار دیا تھا، آج سائنس اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ موسیقی سے انسان کے دماغ کے سوچنے سمجھنے والے حصّے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ یہ اسلام کی صداقت و حقانیت کی ایک اور سائنسی دلیل ہے۔ موسیقی بھی درحقیت ان تفریحات میں سے ہیں، جو تخریبی ہیں، اور فرد، معاشرے اور دین ہر ایک کے لیے مضر ہیں۔
"موسیقی روح کی غذا ہے"۔ اس بےبنیاد اور پرفریب دعویٰ کی قلعی اسرائیل کے شہر ریشون لی زیون میں قائم ایک یونیورسٹی کے ماہرینِ نفسیات نے تحقیق کے ذریعے منظر عام پر لائی۔ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا کہ موسیقی پر تشدد اور منفی جذبات کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماہرین نے 150/ طلبہ کو موسیقی کی مختلف اقسام سنا کر ان کی طبع اور حرکات و سکنات پر خاص ریسرچ کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ریپ اور میٹل جو کہ تیز موسیقی کی دو اقسام ہیں کے سننے والے لوگ متشدد رویہ جلدی اپنا لیتے ہیں اور کسی کے اکسانے پر تشدد اور جارحیت کو بہت جلد اپنا لیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ تیز موسیقی سننے والے لوگوں کو سیاستدان اور شدت پسند گروہ بڑی آسانی سے اپنے مذموم مقاصد کےلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس لئے موسیقی کو امن کی آواز یا روح کی غذا سمجھنا خود کو اندھیرے میں رکھنے اور دھوکا دینے کے مترادف ہی ہوگا۔
❃ سیاسی اور استعماری حربہ:
عصر حاضر میں اچانک اموات کے سلسلہ میں ہونے والے اعداد و شمار سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ گذشتہ کی بہ نسبت اس زمانہ میں ناگہانی اموات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، جس کی مختلف وجوہات ہیں ان میں سے ایک وجہ یہی عالمی پیمانہ پر غنا اور موسیقی کی زیادتی اور بےجا استعمال ہے۔ آخر ان کے پس پردہ کیا مقاصد کارفرما ہیں۔
عصر حاضر میں منشیات صرف تجارتی پہلو نہیں رکھتی، بلکہ ایک اہم سیاسی حربہ ہے۔ یعنی استعمار کی ایک اہم سیاست ہے، فحاشی کے اڈّے، جوے خانے اور دوسری غلط سرگرمی، منجملہ غنا اور موسیقی کو وسیع پیمانہ پر رائج کرنا استعمار کا ایک اہم ترین حربہ ہے، تاکہ عام لوگوں کے افکار کو منحرف کردیں، اسی وجہ سے دنیا بھر کی ریڈیو چینلز میں زیادہ تر موسیقی ہوتی ہے، اسی طرح ٹیلی ویژن اور ماس کمیونیکیشن وغیرہ شعبوں میں بھی موسیقی و رقص اور فحاشیت و عریانیت کی بھر مار ہے۔ موسیقی ان کا اہم ٹول ہے، جس کے ذریعے وہ نوآبادیاتی پالیسی پر کنٹرول کرنے کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔
عالمی پیمانہ پر استعمار، عام لوگوں خصوصاً نئی نسل کی بیداری سے خوف زدہ ہے، اسی وجہ سے استعمار کے پاس اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی منصوبہ بندی ہے، جس سے مختلف قوموں اور معاشروں کو جہالت اور غفلت میں رکھنے کے لئے غلط سرگرمیوں کو رائج کرے۔
❃ موسیقی خود' موسیقی داں کے لئے سم قاتل:
اگر مشہور موسیقی داں افراد کی زندگی پر دقیق توجہ کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنی عمر میں نفسیاتی مشکلات میں گرفتار ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ ان کے اعصاب جواب دے دیتے ہیں اور بہت سے افراد نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، بعض لوگ اپنی عقل و شعور کھو بیٹھتے ہیں اور پاگل خانوں کے مہمان بن جاتے ہیں، بعض لوگ مفلوج اور ناتواں ہوجاتے ہیں، یہاں تک بعض لوگوں کا موسیقی کا پروگرام کرتے ہوئے بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے اور وہ موقع پر ہی دم توڑ جاتے ہیں۔
❃ موسیقی اور مطالعہ:
موسیقی کے ساتھ مطالعہ کرنا انسانی ذہانت کے لیے نقصان کا باعث ہے؟ اس سے متعلق یونیورسٹی آف ویلز کی ایک دل دہلا دینے والی سائنسی تحقیق سامنے آئی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موسیقی سنتے ہوئے مطالعہ کرنا سخت ضرر اور نقصان کا سبب ہے۔ تیز یا ہلکی موسیقی مطالعے میں خلل کا سبب بنتی ہے۔ اس کے مضر اثرات انسانی دماغ پر ہوتے ہیں، انسان کے نسیانی مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
❃ انسانی فطرت پر خطرناک اثرات:
موسیقی کا استعمال انسانی فطرت کو بھی بڑا نقصان پہنچا رہا ہے۔ کینیڈا کے ایک سائنس داں کی تحقیق سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ ڈرائیونگ کے دوران اگر کوئی ڈرائیور 95 ڈیسیبل سے 110 ڈیسیبل یا اس سے زیادہ تیز آواز میں موسیقی سُنتا ہے تو اُس کی گاڑی کے حادثے کا شکار ہونے کے امکانات 20 فی صد تک بڑھ جاتے ہیں۔
اگر آپ کام کے دوران موسیقی سن رہے ہیں تو یہ بہت سارے خلفشار کا باعث بن سکتا ہے۔ چونکہ بہت سے لوگ پس منظر کے شور کے خلفشار کو ختم کرنے کے لئے کام کرتے ہوئے موسیقی سنتے ہیں، اس لئے حجم کی سطح کو غیر صحت بخش سطح پر رکھا جاتا ہے۔ 85 ڈیسیبل سے اوپر کی کوئی بھی چیز کسی کو جسمانی درد کا باعث بن سکتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سننے کی صلاحیت کو کم کر سکتی ہے۔
سب سے اہم یہ ہے کہ اس کا استعمال دماغ کو بھولنے والا بھی بنا سکتا ہے۔ موسیقی سنتے ہوئے اپنے آپ کو کسی کام میں شامل کرنے سے، یہ کافی عام ہے کہ آپ کو یادداشت میں کچھ خلاء کا سامنا ہوگا۔ آپ اپنے پراجیکٹ میں جو کچھ کر رہے ہیں اس سے محروم ہو جائیں گے یا پراجیکٹ کو مکمل کرنے کی پوری ذہنیت سے محروم ہو جائیں گے۔
❃ جذباتی سیلاب۔ Emotional Flooding:
موسیقی سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے زیادہ تر افراد چاہے اُن کا تعلق کسی صنف یا جنس سے کیوں نہ ہو۔ عموماً آپس کے باہمی تعلقات میں زبردست بے پرواہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسا آخر کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب محققین کے مطابق کچھ یوں تھا کہ ہر وقت موسیقی سننے سے انسانی ذہن ایک خود ساختہ افسانوی Self-made fiction دنیا تعمیر کرلیتا ہے اور وہ اپنے ساتھی میں ایسی ایسی خوبیاں اور عادتوں کی توقع کرنے لگتا ہے، جن کا کسی ایک فرد میں مجتمع ہونا کم و بیش ناممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا جب تعلقات میں خیالی توقعات پوری نہیں ہو پاتیں تو وہ شخص مطلوبہ خوبیوں کی تلاش و جستجو میں کسی دوسرے فرد کی جانب ملتفت ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اندلس میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی، لیکن حکمران جب رقص و سرور کی عیاشیوں میں محو ہوئے تو اندلس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی انگریز کا دور دراز سے آکر قابض ہو جانے کا بڑا سبب مغلوں کا رقص و سرور کی محفلوں کو آباد کرنا، مغنیہ و رقاصاؤں کی محفلوں کو گرمانا اور محلات کو عیش گاہوں میں تبدیل کرنا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ گانا و موسیقی کو صحابۂ کرامؓ سے لے کر عصر حاضر تک تمام اہلِ عِلم حرام قرار دیتے آئے ہیں۔ صوتُ الشّیطان اور مزمار الشّیطان کی حرمت پر قرآنِ حکیم، احادیثِ رسولﷺ اور اقوالِ صحابہؓ و سلفِ اُمّتؒ شاہد ہیں، لہٰذا ہمیں ان کی تعلیمات کی روشنی میں اپنا سمت سفر متعین کرنا ہوگا۔ اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ رقص و سرود اور موسیقی، اسلامی ثقافت کا شعبہ نہیں، بلکہ جدید جاہلی ثقافت کا شعبہ ہے، جو شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔
شیطان کی آواز، گانا، بانسُری اور آلاتِ موسیقی ہیں۔ موسیقی اور گانے کو روح کی غذا، ذہنی سکوں کا سبب، دُکھے دِل کا چین یا کُچھ بھی کہا جائے، ہے تو وہی جِسے اللّٰہ اور اس کے رسول اللّٰہﷺ نے حرام قرار دِیا ہے۔ مندرجہ بالا علمی گفتگو سے یہ بات تو سمجھ میں آگئی کہ موسیقی رُوح کی غذا ہے، مگر اِنسانی روح کی غذا نہیں، بلکہ شیطانی رُوح کی غذا ہے۔ موسیقی شیطان کی غذا ہے! شیاطین اس سے قوت پکڑتے ہیں۔ موسیقی سے رُوح کو نہیں نفس کو سکون ملتا ہے۔ رُوح کی غذا تو حقیقت میں "ذکرِ اِلٰہی" ہے۔
اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَطۡمَئِنُّ قُلُوۡبُهُمۡ بِذِكۡرِ اللّٰهِ ؕ اَلَا بِذِكۡرِ اللّٰهِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ۔ (سورۃ الرعد- 28)
ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے (اِس نبی کی دعوت کو) مان لیا اور اُن کے دلوں کو اللّٰہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللّٰہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔
آئیں توبہ کریں! اے اللّٰہ ہم سے لاعلمی کی بنیاد پر، غیر شعوری طور آج تک جو گناہ ہوئے ہیں، انہیں معاف فرما۔ اپنے گهروں، اپنے معاشرے سے موسیقی کی ہر قسم کو دور کریں گے۔ اے اللّٰہ! شیطان کے راستے اور اس کے وسوسوں سے ہماری حفاظت فرما۔ اللّٰہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
(نوٹ: اس مضمون کو تحریر کرنے کے لئے میں ہمارے ساتھی جاوید پٹیل کا ممنون و مشکور ہوں، جنہوں نے اس موسیقی کے موضوع پر روشنی ڈالنے کی گذارش کی۔)
۱۴. ۱۱. ۱۲۰۲ء
•┅┄┈•※✤م✿خ✤※┅┄┈•
(14.11.2021)
🍁༻مسعود محبوب خان༺🍁 (masood.media4040@gmail.com)
Ⓜ️•••══ ༻م✿خ༺══•••Ⓜ️
○○○○○○○○○
Comments
Post a Comment