وَاِذَا الۡمَوۡءٗدَةُ سُئِلَتۡ

*••⊱وَاِذَا الۡمَوۡءٗدَةُ سُئِلَتۡ⊰••*
And when the girl-child buried alive shall be asked.
          ┄┅════❁﷽❁════┅┄               
╗══════•❁ا۩۝۩ا❁•═══════╔
                 وَاِذَا الۡمَوۡءٗدَةُ سُئِلَتۡ
╝══════•○ ا۩۝۩ا ○•═══════╚
     🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
               📱09422724040
         •┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•

      افسوس ناک، ناقابل تصور اور روح فرسا خبر نظروں سے گزری، ریاست تلنگانہ میں ایک نومولود زندہ بچی کو دفن کردیا گیا۔ ریاست تلنگانہ کے ضلع ہنماکونڈہ میں نوزائیدہ بچی کو زندہ دفن کر دیا گیا۔ یہ واقعہ دامیرا منڈل کے یورو گونڈہ میں پیش آیا۔ بچی کو نامعلوم افراد نے زندہ دفن کر دیا۔ ایک لاری ڈرائیور نے کیچڑ میں حرکت دیکھی، معائنہ کرنے پر اس نے ایک نومولود بچی کو زندہ دفن پایا۔ فوری طور پر مٹی کے ڈھیر کو ہٹا کر لڑکی کو باہر نکالا اور مقامی لوگوں نے فوراً پولیس کو اطلاع دی۔ شیر خوار بچی کو ورنگل کے سرکاری اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

      اسی نوعیت کا ایک واقعہ 1؍ نومبر 2019ء کا اسی شہر حیدرآباد سے ملتا ہے، حیدرآباد کے ایک مشہور علاقے سکندرآباد کا ہے جہاں پولیس نے چار روزہ نوزائیدہ لڑکی کو زندہ دفن کرنے سے روک دیا تھا۔ شیر خوار بچی کو جوبلی بس اسٹیشن کے پیچھے ایک ویران جگہ پر دفن کیا جارہا تھا، ایک آٹو رکشہ ڈرائیور جو کہ فطرت کی کال اٹینڈ کر رہا تھا، نے انہیں دیکھا اور پولیس کو اطلاع دی۔

     عصر حاضر میں لڑکی یا بیٹی کے نام سے اتنی نفرت، عداوت اور اس کے ساتھ ایسی شقاوت کا برتاؤ کے نومولود شیر خوار بیٹی کو مٹی کی قبروں میں زندہ دفن کیا جارہا ہے۔ حیدرآباد ملک کا انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ترقی یافتہ شہر میں اپنا مقام رکھتا ہے۔ جہاں ایجوکیشن کا معیار اپنی بلندی کو چھو رہا ہے۔

     حیدرآباد میں رُونما ہوئے ان واقعات نے رسول اللّٰہﷺ سے قبل کے عرب معاشرے میں رائج ہیبت ناک و بھیانک واقعات کو ذہنوں میں پھر سے زندہ کردیا۔ اور قرآن کریم کی ان آیات کو یاد دلا دیا جب زندہ درگور بیٹیوں سے سوال کیا جائے گا کہ کس گناہ کی پاداش میں تجھے قتل کیا گیا۔ کتنا ہیبت و غضب ناک منظر ہوگا، جب اللّٰہ ربّ العالمین ان ظالم و بے رحم والدین سے سوال نہ کرتے ہوئے ان سے نظریں پھیر لے گا، کیونکہ وہ والدین اپنے اس عمل کے نتیجے میں قابلِ نفرت ہونگے۔ بلکہ اللّٰہ ان معصوم بیٹیوں سے مخاطب ہوکر سوال کرے گا کہ آخر کس قصور میں تجھے قتل کیا گیا ہے؟

      وَاِذَا الۡمَوۡءٗدَةُ سُئِلَتۡ• بِاَىِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ‌ۚ•
     اور جب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا۔ کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی۔ (سورۃ التکویر: 8 - 9)

      "مَوۡءٗدَةُ" اس بچی کو کہتے ہیں جو زندہ درگور کردی گئی ہو کہ مٹی کے نیچے دب کر دم توڑ دے۔ ان بیٹیوں کے قاتلوں، ظالموں اور دفنانے والوں کو ملامت کے طور پر اللّٰہ تعالیٰ ان سے نگاہیں پھیر لے گا۔ اس گناہ کے ارتکاب کے نتیجے میں اللّٰہ ربّ العزت کا جلال اپنے عروج پر ہوگا۔ درندے بھی اپنے جگر گوشوں پر رحم کرتے ہیں، مگر یہ کیسے انسان نما حیوان ہیں جو اپنے لخت جگر کو زندہ درگور کرتے ہیں۔ واقعی ایسے لوگ دنیا و آخرت میں لعنت و ملامت کے مستحق ہوں گے۔

     رسول اللّٰہﷺ کی نبوت و رسالت سے قبل کفر و شرک میں مبتلا عرب معاشرے میں صنفِ نازک اور بیٹیوں سے متعلق بعض قبائل کا رویہ (جن میں مضر، خزاعہ اور تمیم کے قبائل سر فہرست تھے) شدید متعصبانہ تھا۔ جہالت بھرے معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی، ان کے حقوق کا کوئی تصور نہ تھا۔

      لڑکی سے عار آنے کی بلا، قبائل قریش کے علاؤہ یوں بھی دنیائے کفر و شرک میں عام رہی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں مشرک قوموں نے بہ کثرت اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا ہے۔ کاش وہ جانتے کہ بیٹی کا وجود ننگ و عار، ذلت و بے عزتی اور بد شگونی و بدفعلی نہیں ہے، بلکہ بیٹی کا وجود سراپا رحمت ہی رحمت ہے۔ بیٹی کی ولادت پر منھ لٹکانا، غمگین اور پریشان ہونا، اللّٰہ کے نظام قدرت اور فطرت کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔

      حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی (کے پیدا ہونے) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ (غم کے سبب) کالا پڑ جاتا ہے اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوز ناک ہو جاتا ہے۔ اور اس خبر بد سے (جو وہ سنتا ہے) لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری ہے۔ (سورۃ النحل: 58 - 59)

     اخلاقی طور پر جہالت زدہ عرب معاشرے کی سب سے بڑی برائی رسم دختر کشی تھی۔ عرب اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے کیونکہ وہ لڑکی کو اپنے لیے باعثِ ذلت تصور کیا کرتے تھے اور یہ ان کی خام خیالی تھی کہ لڑکی کی پیدائش ان کے سرِ غرور کو نیچا دکھائے گی اور دوسروں کی نگاہوں میں ذلیل کرے گی۔ لڑکی کی پیدائش ان سب کے لئے باعثِ شرم و عار تھی۔ اتنی سنگ دلی کا مظاہرہ تھا کہ باپ جب لڑکی کو زندہ دفن کرکے آتا تھا تو بھری مجلس میں مسرت اور فخر کا اظہار کرتا تھا۔

      کفر و شرک میں مبتلا عربوں کا معاشرہ اس بات کا قائل تھا کہ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جائے، کبھی تو زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے ایک گڑھا کھود کر رکھا جاتا تھا، تاکہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں ڈال کر مٹی ڈال دی جائے۔ کبھی ماں کی محبت آڑھے آتی تو پھر جب لڑکی کی عمر 6؍ سال ہوجاتی، تو معصوم کا ظالم باپ ویرانے میں لے جاتا اور گڑھا کھود کر سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ننھی سی جان کو اس گڑھے میں زندہ دفن کر دیتا۔ بیٹی کی سسکی بھری پیاری پیاری آواز بابا بابا کہتے ہوئے ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جاتی۔ وہ اس وقت تک وہاں سے نہ ہلتا جب تک اسے تسکین نہ ہو جاتی کہ جس داغ نے اس کا چہرہ سیاہ کیا تھا وہ داغ مکمل طور پر مٹ نہ جاتا۔ اس بے رحم باپ کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ گڑھا کھودتے وقت یہ بیٹی اس کے لباس کو جھاڑتی، اس داڑھیوں اور سر کے بالوں کو مٹی کے ذرات سے صاف کرتی۔

      آج بھی مکہ مکرمہ میں وہ قبرستان موجود ہے جہاں زمانہ جاہلیت میں کفار و  مشرکین زندہ بیٹیوں کو درگور کیا کرتے تھے، اس قبرستان کو لوگ "شبیکا قبرستان" کے نام سے جانتے ہیں، یہ قبرستان مکہ مکرمہ میں حرم شریف کے صحن کے قریب واقع ہے۔

      ایک شخص نے حضورﷺ سے اپنے عہد جاہلیت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی، جب میں اسے آواز دیتا تو وہ تیزی سے دوڑتی ہوئی آتی۔ ایک مرتبہ اسے ایک سفر پر لے کر نکلا، راستہ میں ایک کنواں نظر آیا، میں کنویں کے اندر اسے ڈھکیل دیا، آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی وہ یہ تھی، ہائے ابا۔ (سنن دارمی، باب اول)

     حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص نے جو اسلام قبول کرنے حاضر ہوا تھا، اپنی بچی کو زندہ درگور کرنے کا واقعہ حضورﷺ کو سنایا اور کہا میرے کانوں میں ابھی تک یہ الفاظ گونجتے ہیں کہ ابا میں آپ سے کھانے کو نہیں مانگوں گی، آپ سے کپڑے طلب نہیں کروں گی، خدا کے لیے مجھے قتل نہ کریں، مجھے اس گڑھے سے نکالیے۔ وہ چیختی رہی اور میں نہایت سنگدلی سے اس پر مٹی ڈالتا رہا، حتیٰ کہ اس کی آواز خاموش ہوگئی۔ آنحضرتﷺ اس ظالمانہ واقعہ کو سن کر بے اختیار روئے، حتیٰ کہ آپﷺ کا دامن آنسوؤں سے بھیگ گیا اور آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ اسلام اللّٰہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے کہ اگر آدمی کے گناہوں سے زمین و آسمان بھی بھر جائیں لیکن اسلام قبول کرنے سے وہ سب معاف ہوجاتے ہیں۔ فرمایا تم ایک نئی زندگی شروع کرو اور پچھلی زندگی کو بھول جاؤ۔

      طبرانی میں ایک روایت ہے کہ فرزدق شاعر کے دادا صعصعہ بن ناجیہؓ نے رسول اللّٰہﷺ سے عرض کیا یا رسول اللّٰہﷺ میں نے جاہلیت کے زمانہ میں کچھ اچھے اعمال بھی کئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے 360؍ لڑکیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچایا اور ہر ایک کی جان کے لئے دو دو اونٹ فدیے میں دیئے ہیں تو کیا مجھے اس پر اجر ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں تیرے لئے اجر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللّٰہ نے تجھے اسلام کی نعمت عطاء فرمائی۔

     آنحضرتﷺ کی ذات گرامی اور آپ کا پیغام دنیا میں رحمت بن کر آیا اور قرآن کریم کی ایک آیت نے انسانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ لوگو! کہ جب زندہ درگور کی جانے والی بچی قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے کھڑی ہوگی تو پروردگار نہایت جلال کے ساتھ اس سے پوچھیں گے کہ تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا تھا۔ اس سوال نے پورے عرب کو ہلا کے رکھ دیا اور پھر نبی کریم ﷺ کی تعلیم نے صنف نازک کے ساتھ ہمدردی اور غمگساری کی وہ ترغیب دی کہ بچیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار پائیں اور ان کا وجود ماں باپ کے لیے جنت کی نوید بن گیا اور انھیں وہ حقوق دیے گئے جس نے انھیں بھائیوں کے برابر لا کھڑا کیا۔

      دختر کشی، چاہے وہ مٹی کی قبروں یا چمڑے کی قبروں میں کی جاتی ہو، اس کے خلاف اسلام نے پوری شدّت سے آواز بلند کی اور کہا کہ لڑکی کو حقِ زیست حاصل ہے۔ جو کوئی اس کے اس حق پر دست درازی کرے گا، قیامت کے روز اس کی باز پرس سے بچ نہ سکے گا۔

      دختر کشی کے اسباب و محرکات دوگانہ تھے۔ کبھی تو لڑکی کا وجود باعث عار سمجھتے تھے، اور شرم و حیا کے مارے اسے مار ڈالتے تھے، اور کبھی اس کے بارے مصارف کے خیال سے، وہ کبھی حسد اور تحفظ کی وجہ سے اور کبھی غربت و افلاس کے خوف اور مال خرچ کرنے کی ضرورت سے ایسا کرتے تھے۔ اور یہ آخری محرک یورپ کی جدید تحرید "برتھ کنڑول" کا بالکل نقش اول تھا۔

      دختر کشی، ایک بہت ہی مایوس کن اور بھیانک عمل ہے۔ اس کے محرکات مختلف ہوسکتے ہیں، جیسے کمزور قانونی نظام، فراہمی کی کمی، جنسی تشدد، خاندانی اور معاشرتی دباؤ، جنونیت، اور تعلیمی فراہمی کی کمی۔ ان سب کے علاؤہ، فرد کی نسل، عمر، اور معاشرتی حیثیت بھی اس عمل کے پیش نظر اہم ہوسکتے ہیں۔

      نومولود بیٹیوں کے قتل کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں، جیسے خاندانی دباؤ، بیٹے کی ترجیح، معاشرتی دباؤ، تعصبات، یا مالی مسائل۔ علاؤہ ازیں بعض افراد کسی خاص معتقدات یا روایات کی بنا پر بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں اور ان کا قتل کرتے ہیں۔ اس موضوع پر بات کرتے وقت ضروری ہے کہ معاشرتی آگاہی بڑھایا جائے تاکہ اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے۔

      نومولود بیٹیوں کو قتل کرنے کا عمل، ایک گھناؤنا اور المناک عمل ہے۔ بیٹیوں کے قتل کے پیچھے وجوہات اور محرکات ثقافتی، سماجی اور اقتصادی عوامل کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ بیٹیوں کے قتل سے نمٹنے کے لیے بنیادی مسائل جیسے کہ صنفی عدم مساوات، معاشی تفاوت اور ثقافتی عقائد کو حل کرنے کے لیے جامع کوششوں کی ضرورت ہے جو لڑکیوں اور خواتین کی قدر کرتے ہیں۔ اس میں تعلیم کو فروغ دینا، خواتین کو با اختیار بنانا، بیٹیوں کے تحفّظ کے لیے قوانین کا نفاذ، اور جنس اور خواتین کی زندگیوں کی قدر کے حوالے سے سماجی رویوں کو تبدیل کرنا شامل ہے۔

     ایسی ثقافتوں میں جہاں بیٹوں کو خاندانی نام رکھنے، وراثت میں جائیداد، یا معاشی مدد فراہم کرنے کے لیے بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، بیٹیوں کو ایک بوجھ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بیٹوں کے لیے یہ ترجیح نومولود بیٹیوں کی قدر میں کمی اور نظر انداز کرنے کا باعث بنتی ہے اور انتہائی صورتوں میں ان کے قتل کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ صنفی عدم مساوات کے حامل معاشرے، خواتین کو مردوں سے کمتر سمجھتے ہیں۔ یہ تصور خواتین کی زندگیوں کی قدر میں کمی کا باعث بنتا ہے اور انہیں تشدد، بشمول بیٹیوں کے قتل کا زیادہ خطرہ بناتا ہے۔

     عربوں میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کا یہ بے رحمانہ طریقہ، قدیم زمانہ میں مختلف وجوہ سے رائج ہوگیا تھا، ایک سبب معاشی بدحالی و فقر کا اندیشہ تھی، بیٹوں سے امیدیں وابستہ کی جاتی تھی کہ وہ حصول معاش میں معاون ہوں گے، مگر بیٹیوں سے یہ توقع نہیں ہوتی تھی، علاؤہ ازیں بیٹیوں پرورش کے بعد دوسروں کے حوالہ کر دینا پڑتا تھا۔

     معاشی عوامل جیسے غربت، محدود وسائل، اور جہیز کی رسمیں لڑکیوں کے قتل میں ایک رول ادا کرتی ہیں۔ خاندان بیٹیوں کو ان کی پرورش، شادی کے جہیز، یا گھر سے باہر کام کرنے کے قابل نہ ہونے کی صورت میں ممکنہ آمدنی کے نقصان کی وجہ سے ان کو معاشی ذمّہ داری کے طور پر بیٹیوں کے قتل کا فیصلہ لینے پر مجبور کرتا ہے۔

     گہرائی سے جڑے ہوئے ثقافتی اصول اور روایات بیٹیوں کے قتل کے عمل کو برقرار رکھتے ہیں۔ کچھ طبقات میں، بیٹی کی پیدائش کو شرمناک یا بدقسمت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے خاندان سماجی بدنامی سے بچنے کے لیے انتہائی اقدامات کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں جہاں خواتین کو تعلیم اور معاشی مواقع تک محدود رسائی حاصل ہے، وہ خاندانی معاملات میں بہت کم بات کر سکتی ہیں، بشمول ایک بیٹی کو رکھنے یا ضائع کرنے کا فیصلہ۔

     خاتم الانبیآء محمدﷺ نے فرمایا "بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو، بےشک وہ مَحَبَّت کرنے والیاں ہیں"۔ (مسند احمد)۔ بیٹیوں کے حق میں رسول اللّٰہﷺ نے یہ حکم صادر فرمایا "جس کسی کی لڑکی ہو پھر وہ اسے نہ زندہ درگور کرے نہ اس کی توہین کرے اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دے اللّٰہ تعالٰی اسے جنت میں داخل کرے گا"۔ (سنن ابوداؤد)

      رسول اللّٰہﷺ کے ارشادات نے اولاد کے حقوق کے حوالے سے بیٹیوں کے حقوق پر زور دیا اور ان کے حُسنِ تعلیم و تربیت کو آخرت میں سرخروئی کا ذریعہ ٹھہرایا۔ دراصل یہ اسلام کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ عرب سے اس انتہائی سنگدلانہ رسم کا خاتمہ کیا، بلکہ اس تخیل کو مٹایا کہ بیٹی کی پیدائش کوئی حادثہ اور مصیبت ہے، جسے بادل ناخواستہ برداشت کیا جائے، اس کے برعکس اسلام نے یہ تعلیم دی کہ بیٹیوں کی بہترین پرورش کی جائے، ان کی عمدہ تعلیم و تربیت کی جائے، اور انہیں اس لائق بنایا جائے کہ وہ آنے والی نسلوں کی تربیت کرسکے۔

     ایک مسلمان کو اللّٰہ تعالیٰ کا ڈر و خوف ہونا چاہیے اور کسی بھی مقصد کے پیشِ نظر اس جرم کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے اور گمراہ کن پروپیگنڈوں اور ناروا رسم و رواج سے جن کی بنیاد نہ تو عقل پر ہے اور نہ دین پر، فریب نہیں کھانا چاہیے۔
           •┅┄┈•※‌✤م✿خ✤‌※┅┄┈•
                     (06.05.2024)
       🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
🏠 ال افشان، 7/4، شیلیش نگر، ممبرا،
       تھانہ- 400612، مہاراشٹر، الہند۔
📧masood.media4040@gmail.com
        Ⓜ️•••══ ༻م✿خ༺══•••Ⓜ️
                      ○○○○○○○○○

Comments

Popular posts from this blog

•صوتُ الشّیطان و مزمار الشّیطان•

Media Trial, in the mirror of reality & targets

Mazmoon nawesi ka nuskha