The reality of religious schools and human trafficking
*••⊱دینی مدارس اور ہیومن ٹریفکنگ کی حقیقت⊰••*
The reality of religious schools and human trafficking
┄┅════❁﷽❁════┅┄
╗══════•❁ا۩۩ا❁•═══════╔
دینی مدارس
اور ہیومن ٹریفکنگ کی حقیقت
╝══════•○ ا۩۩ا ○•═══════╚
🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
دینی مدارس کو اسلام کے قلعوں سے تعبیر کیا جاتا ہے، مدارس کے طلباء کو مہمان رسول بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ عالمی سطح پر اپنی بے لوث خدمات انجام دینے والی سب سے بڑی حقیقی "این جی اوز" کا کردار بھی ادا کررہے ہیں۔ دینی مدارس جہاں طلباء و طالبات کو بلا معاوضہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے، جہاں فی سبیل اللّٰہ طعام و قیام اور مفت طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ان دینی مدارس نے ہر دور میں تمام تر مصائب و مشکلات، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت اور شکل میں اپنا وجود اور مقام برقرار رکھتے ہوئے اسلام کے تحفّظ اور اس کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ؎
قسمتِ نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
شاہ ولی اللّٰہ دہلوی اور شاہ عبد العزیز سے لے کر آج تک کے سبھی بڑے اور اہم علماء کرام نے ملک و ملّت کی تعمیر میں اہم رول ادا کیا۔علماء صادق پور کی خدمات سے ہندوستان کی آزادی کی تاریخ روشن ہے۔ آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد علماء اور مدارس کے پروردہ لوگوں کی ہے۔
آج جب کہ انہیں دینی مدارس کے طلباء و اساتذہ رمضان کی تعطیلات گزار کر دوبارہ اپنے تعلیمی و تدریسی اداروں میں سفر کی اذیتوں کو برداشت کرکے عوامی ٹرانسپورٹ سے اپنے پیسوں پر آرہے ہیں انہیں دورانِ سفر حراست میں لے کر حراساں کرنے کی ناکام کوششیں ہورہی ہیں۔
دینی مدارس کے طلباء کو دورانِ سفر ٹرینوں اور بسوں سے اتار کر یا اسٹیشنز یا بس ڈپو سے پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے والے لوگ یا نام نہاد بچپن بچاؤ نامی مبینہ تنظیمیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ یہ بچوں کی ٹریفکنگ کا معاملہ نہیں، لیکن مذہبی تعصب و اسلاموفوبیا کا شکار ایسی تنظیمیں نفرت و عداوت کے بیج بو رہیں ہیں۔ ابھی 5 روز قبل مدرسے کے طلباء کے ایک گروپ کو ایک بس میں اسمگل کیے جانے کے شبہ میں حکام نے روکا جو عید کی چھٹیوں کے بعد واپس مدرسہ جارہے تھے، بس کو پولیس، چائلڈ ویلفیئر کمیٹی اور ایک این جی او کی ایک ٹیم نے انٹیلی جنس انپٹ پر کارروائی کرتے ہوئے روکا۔
اس طرح کی متعصبانہ حرکتوں کا مقصد اساتذہ اور طلباء کو ان کی تعلیمی حقوق سے محروم کرنا اور ان کی خوداری اور عزتِ نفس کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ اس کی بجائے، ان کی تعلیمی حقوق کو محفوظ کرنا اور ان کو حمایت فراہم کرنا چاہئے تاکہ وہ بے خوف ہوکر تعلیم حاصل کر سکیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر انسان کو انسانی حقوق کی حفاظت فراہم کی جائے، چاہے وہ کسی بھی معیاری یا دینی سلسلے کا حصّہ ہو۔ اس طرح کے متعصبانہ عمل سے معاشرے کے معیارات اور اخلاقی قدروں کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اور اس طرح کے عمل کی مخالفت و احتجاج کے لئے انسانیت نوازوں کو آگے آنا چاہئے۔ اگر دینی مدارس کے طلباء کو سفر کے دوران حراست میں لیا جاتا ہے، تو ان پر عائد قانونی الزامات کا انحصار عام طور پر حراست کے ارد گرد کے حالات اور ملکی قوانین پر ہوتا ہے۔
طلباء اور اساتذہ کو ناکردہ گناہ کی سزا اور human trafficking کے نام پر حراست میں لینا اور انہیں ہتھکڑیاں پہنا کر، پابند سلاسل کرنا اور ساتھ ہی میڈیا ٹرائل چلا کر ذلیل و رسواء کرنا ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ "ہیومن ٹریفکنگ" انسانوں کی جارحانہ خرید و فروخت کو کہا جاتا ہے۔ یہ ایک غیر قانونی عمل ہوتا ہے جس میں افراد کو غلط وعدے دیے جاتے ہیں یا ان کو زبردستی سے محروم کرکے ان کو مزدوری یا ظلم و جبر کی بنیاد پر غیر قانونی کام کروائے جاتے ہیں۔ اس عمل کے زیرِ اہتمام افراد کو غیر معمولی دباؤ میں رکھا جاتا ہے اور ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ 2013ء کا نفاذ عمل لایا گیا ہے، جس میں تعزیرات ہند کی دفعہ 370 کو دفعہ 370 اور 370A IPC کے ساتھ بدل دیا گیا ہے جو انسانی اسمگلنگ کی لعنت سے نمٹنے کے لیے جامع اقدامات فراہم کرتا ہے جس میں کسی بھی شکل میں استحصال کے لیے بچوں کی سمگلنگ شامل ہے۔ جسمانی استحصال یا جنسی استحصال کی کسی بھی شکل، غلامی، یا اعضاء کو زبردستی ہٹانا۔
جنسی ٹریفکنگ میں افراد کو جنسی استعمال کی مزدوری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اور وہ عام طور پر زبردستی یا جعلی وعدوں کی بنا پر ایسے کاروبار میں مبتلا کیئے جاتے ہیں۔ اس میں افراد کو زبردستی کام پر مجبور کیا جاتا ہے، جیسے کہ بچوں کو خدمت گزاری کے لئے مصروف کردیا جاتا ہے۔
جرائمی ٹریفکنگ، اس میں افراد کو غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے، جیسے کہ جعلی رقم کے کاروبار میں شامل کیا جانا۔ اعضاء کی خرید و فروخت اس میں افراد کو اعضاء (جسمانی اور جنسی) کی خرید و فروخت کے لئے مجبور کیا جاتا ہے، جو انسانیت کی خلاف ورزی کا سبب بنتا ہے۔
حکومتی سطح پر بچوں کی اسمگلنگ سے نمٹنے اور بچوں کو قانونی تحفّظ فراہم کرنے کے لیے کئی قوانین اور ضابطے بنائے گئے ہیں۔
جنسی جرائم سے بچوں کا تحفّظ (POCSO) ایکٹ، 2012ء: یہ ایکٹ خاص طور پر بچوں کے خلاف جنسی جرائم سے متعلق ہے اور تفتیش اور مقدمے کی سماعت کے دوران ان کا تحفّظ فراہم کرتا ہے۔
بانڈڈ لیبر سسٹم (ابولیشن) ایکٹ، 1976ء: یہ ایکٹ بندھوا مزدوری پر پابندی لگاتا ہے، جو اکثر بچوں کی اسمگلنگ سے منسلک ہوتا ہے۔
غیر اخلاقی ٹریفکنگ (روک تھام) ایکٹ، 1956ء (ITPA): یہ قانون تجارتی جنسی استحصال کے مقصد کے لیے اسمگلنگ کو مجرم قرار دیتا ہے اور متاثرین کی بچاؤ، بحالی اور وطن واپسی کا بندوبست کرتا ہے۔
جووینائل جسٹس (بچوں کی دیکھ بھال اور تحفّظ) ایکٹ، 2015ء: یہ ایکٹ بچوں کی دیکھ بھال، تحفّظ، اور بحالی پر توجہ مرکوز کرتا ہے، بشمول اسمگلنگ کی روک تھام اور کنٹرول کی دفعات۔
کوئی ہمیں بتائے تو سہی کہ ہیومن ٹریفکنگ کی مختلف اقسام میں سے آخر کون سی شق میں ان متوسط و غریب طلباء کو حراساں کیا جارہا ہے۔ آخر ملک میں کن بنیادوں پر human trafficking کے نام پر مسلم طلباء خصوصاً مدارس کے طلباء کو حراست میں لیا جاتا ہے؟
مسلم طلباء کو حراست میں لینے کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں، جیسے کہ غیر قانونی سرکاری دستاویزات، شبہ برآمد ہونے والی کسی غیر قانونی فعالیت کی وجہ سے، یا کسی دھندے یا human trafficking کے شبہ کی صورت میں، یا بچوں کے اغواء یا بال مزدوری کی دفعات کے پیش نظر۔ لیکن ان مواقع میں مسلم طلباء کو بغیر ثابت شدہ اشتباہ کے حوالے سے حراست میں لینا غیر قانونی اور ناانصافی کی صورت ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال میں انصاف کی تلاش اور قانونی حقوق کی حفاظت کے لئے ہمیشہ حقوق نافذ کرنے والے اداروں کی طرف رجوع ہونا ضروری ہوتا ہے۔
ہندوستان میں، مسلمان طلباء، خاص طور پر مدارس کے طالب علموں کو ہیومن ٹریفکنگ کے نام پر مختلف بنیادوں پر حراست میں لیا جارہا ہے۔ جب کہ طلباء کو حراست میں اس وقت لیا جا سکتا ہے اگر ان کے پاس مناسب دستاویزات یا سفر کے لیے درکار دیگر حکومتی جاری کردہ دستاویزات کی کمی ہو، یا ان کی سفری روٹ مشکوک لگے۔ اگر غیر قانونی سرگرمیوں جیسے اسمگلنگ، غیر دستاویزی ہجرت، یا دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا شبہ ہے تو طلباء کو حراست میں لیا جا سکتا ہے۔
مدارس یا دیگر تعلیمی اداروں کو جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن یہ اس وقت ہوگا جب اگر ان کی رجسٹریشن نامکمل ہے یا اگر ان کے رجسٹریشن کے دستاویزات میں تضادات ہیں، جس سے ہیومن ٹریفکنگ کا شبہ پیدا ہوتا ہے۔ سماجی یا سیاسی بدامنی کا سامنا کرنے والے علاقوں میں، حکام حفاظتی اقدامات کے تحت یا بدامنی یا تشدد کو روکنے کے لیے طلباء سمیت افراد کو حراست میں لے سکتے ہیں۔ لیکن دینی مدارس کا معاملہ ایسا بھی نہیں!
بعض اوقات مدارس کی ناقص کارکردگیوں کے نتیجے میں یعنی تعلیمی یا انسانی حقوق کی خرابیاں وغیرہ ہوں، تو اس سبب سے بھی حراست میں لینے کی گنجائش پیدا کی جاتی رہی ہے۔ اگر کسی مدرسہ کی رجسٹری ناقص ہو یا اس کے رجسٹری میں غلطیاں ہوں، سرکاری قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہو تو اس کا شبہ human trafficking کی صورت میں کیا جاتا ہے۔
یہاں اہم ہے کہ کسی بھی طلباء کو حراست میں لیا جاتا ہے تو اس کو قانونی طور پر ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کسی غیر قانونی فعالیت کا حصّہ ہیں۔ اس طرح کے مواقع میں عدالتوں کا کردار اہم ہوتا ہے تاکہ بغیر غلطی کے مسلم طلباء کی حریت کا تحفّظ کیا جا سکے۔ اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ کسی بھی حراست کو قانونی طریقہ کار کے مطابق انجام دیا جائے اور یہ کہ افراد کے حقوق بشمول ان کی قانونی نمائندگی کے حق اور مناسب عمل کا احترام کیا جائے۔ امتیازی بنیادوں پر یا مناسب ثبوت کے بغیر غیر قانونی حراستوں کو قانونی ذرائع سے چیلنج کیا جانا چاہیے۔
دینی مدارس کو ہمیشہ معاشرتی ترقی کے مطابق بنایا جائے یہ ممکن ہے کہ 6 سے 14 سال کے طلباء کو بنیادی علوم عصری تعلیم بھی دی جائے تاکہ وہ مختلف میدانوں میں کام کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکیں۔ تاکہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے حق سے بھی فیضیاب ہوسکیں۔
نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائیلڈ رائٹس (NCPCR) نے 18 سال تک کے طلباء کے تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کے لیے ریگولیٹری رہنما خطوط تیار کیے ہیں۔ اہلِ مدارس کو ان ریگولیٹری رہنما خطوط کا عمل پیرا ہونے کیلئے مسلسل کوشش کرنا چاہیے تاکہ طلباء کی حفاظت کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ یہ ایک بہت اہم قدم ہے جو طلباء کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔ ان ریگولیٹری رہنما خطوط کی عمل پیرائی سے طلباء کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی ممکن ہوگی، جس سے ان کی تعلیمی اور دانشوری کی بہتری ہوسکتی ہے۔
دینی مدارس کو ہیومن ٹریفکنگ کے الزامات سے بچانے کے لیے، شفافیت، جوابدہی، اور قانونی اور اخلاقی معیارات کی پابندی کو ترجیح دینا ضروری ہے۔ یہاں کچھ اقدامات ہیں جو دینی مدارس اٹھا سکتے ہیں:
ملکیت کے کاغذات اور تعمیری نقشے کی منظوری کو سنجیدگی سے لینا بہت اہم ہے۔ بالخصوص ملكيت کا مکمل ثبوت، رجسٹری، نوٹری، وقف نامہ، رجسٹری ذاتی ملکیت یا ادارہ کی ملکیت، رجسٹرى مع داخل خارج، بلڈنگ کا منظور کردہ نقشہ، پینے کا پانی، بجلی کی سپلائی، فائر فائٹنگ کے لیے محکمہ فائر بریگیڈ سے اجازت وغیرہ کی اپڈیٹ کاپیاں اپنے ساتھ رکھی جائیں۔ ان معاملات میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، تاکہ ملکیت کا مکمل ثبوت حاصل ہو اور امن و امان کی فضاء یقینی بنی رہے۔
رجسٹرڈ ٹرسٹ یا سوسائٹی کے تحت ادارہ کے نظام کو چلایا جائے۔ سالانہ آڈٹ رپورٹ تیار کروائی جائے۔ اسکول یا مدارس کے آپریشنز، پالیسیوں اور طریقہ کار کے باقاعدگی سے آڈٹ اور جائزے لیں، تاکہ خطرے یا ممکنہ خطرے کے کسی بھی شعبے کی نشاندہی کی جاسکے۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری کارروائی کریں اور حفاظتی اقدامات کو مسلسل بہتر بنائیں۔
مدارس کے آزاد کردار کی بقاء کے لیے سرکاری امداد سے ہر سطح پر اجتناب کیا جائے۔
ایسی واضح پالیسیاں اور طریقہ کار تیار کریں جو ادارے کے اندر ہیومن ٹریفکنگ یا استحصال کی کسی بھی شکل کو واضح طور پر ممنوع قرار دیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ پالیسیاں عملے، طلباء اور والدین کو مؤثر طریقے سے بتائی جاتی ہیں۔
عملے اور طلباء کے لیے ہیومن ٹریفکنگ کی علامات کو پہچاننے اور مناسب طریقے سے جواب دینے کے بارے میں باقاعدہ تربیت اور آگاہی کے پروگرام فراہم کریں۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں، طلباء کے تحفّظ کی تنظیموں، اور دیگر متعلقہ حکام کے ساتھ رہنمائی حاصل کرنے، معلومات کا اشتراک کرنے، اور ہیومن ٹریفکنگ کو روکنے کے لیے تعاون کرنے کے لیے شراکت داری قائم کریں۔
مدارس کے اندر ایک محفوظ اور معاون ماحول بنائیں جہاں طلباء کسی بھی قسم کے خدشات یا واقعات کے بارے میں بات کرنے میں آسانی محسوس کریں جن کا انہیں سامنا ہو سکتا ہے۔ شکایات کو مؤثر طریقے سے اور رازداری سے رپورٹ کرنے اور حل کرنے کے طریقہ کار کو نافذ کریں۔
ان اقدامات پر عمل درآمد کرکے، دینی مدارس اپنے طلباء کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنانے اور ہیومن ٹریفکنگ کے بے بنیاد الزامات سے خود کو بچانے کے لیے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کریں۔
دینی مدارس اور ہیومن ٹریفکنگ کی حقیقت بالکل واضح ہے۔ مذہبی اسکول یا دینی مدارس تعلیمی اداروں کے طور پر کام کرتے ہیں، جو اکثر اخلاقی اور اخلاقی اقدار پر زور دیتے ہیں۔ دوسری طرف، ہیومن ٹریفکنگ ایک گھناؤنا جرم ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور مختلف مقاصد کے لیے افراد کا استحصال کرتا ہے۔ اگرچہ مذہبی اسکولوں اور ہیومن ٹریفکنگ کے درمیان کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے، لیکن یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ تمام تعلیمی ادارے، بشمول مذہبی، ایک محفوظ ماحول بنانے کو ترجیح دیں جو انسانی وقار کے احترام کو فروغ دے اور استحصال یا بدسلوکی کی کسی بھی شکل کا مقابلہ کرے۔
مدارس عام طور پر مذہبی تعلیم، اسلامی اصولوں، اقدار اور متن کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں۔ 'تعلیم' ہیومن ٹریفکنگ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور انسانی زندگی کے تقدس کو برقرار رکھنے والی اقدار کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انسانی حقوق اور وقار کو ترجیح دینے والے علم اور اقدار کے حامل افراد کو بااختیار بنا کر، تعلیم ہیومن ٹریفکنگ کی لعنت کو روکنے اور اس سے نمٹنے میں کلیدی عنصر ثابت ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دینی مدارس پر لگائے جانے والے ہیومن ٹریفکنگ کے بےبنیاد الزامات اور مقدمات سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب سبیل ثابت ہوسکے۔
اللّٰہ ربّ العالمین! باطل کے شر سے ہم تمام کی حفاظت فرمائے، اللّٰہ مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔ مسلمانوں کے دینی و عصری تعلیمی اِداروں کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)
•┅┄┈•※✤م✿خ✤※┅┄┈•
(03.05.2024)
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
🏠 ال افشان، 7/4، شیلیش نگر، ممبرا،
تھانہ- 400612، مہاراشٹر، الہند۔
📧masood.media4040@gmail.com
Ⓜ️•••══ ༻م✿خ༺══•••Ⓜ️
○○○○○○○○○
Comments
Post a Comment